Today, Malala Yousafzai is a beacon of hope for thousands of other
girls who dare to dream of education and ambition. At the 8th
International Conference on Women Leadership held in Islamabad last
week, Yousafzai was given the excellence award in the category of “The
Future of Pakistan”.
“I could not believe when I heard them calling me the future of
Pakistan. I am highly encouraged by this award. I need appreciation and
encouragement to complete a long and tough journey that is ahead,” she
said upon receiving the award.
The world looked at the miseries of Swat through this beautiful pair
of eyes, and realised the pain through the words that came out of her
which she penned under the name of ‘Gulmakai’. The innocence in her
writing represented those bereavements which many adults were unable to
describe. Gulmakai’s diary was first published on BBC Urdu’s website in
2009. Aged 15, Malala is now studying in the 9th grade.
“Swat is peaceful now. But I don’t understand the fact that why the
government is not showing any interest in rehabilitating the people who
suffered the displacement. They are not even building the schools for
us. It’s just the Pakistan Army with the cooperation of UAE government,
which is helping recover Swat from the horrific aftermath of
Talibanisation,” she exclaims with a mix of sorrow and anger.
Accompanying Yousafzai at the conference, her parents believe that their daughter has a long way to go.
“Death is inevitable. Every person has to die at some point, whether
there is terrorism or not. This does not mean that we should stop
walking on the path of truth. My husband and my daughter both have
proven that no terror can hinder the way of truth. She is making us
proud since the day she was born,” her mother states.
Forty-three year old Ziauddin is the proud father of Yousafzai, who
heads the Khushal Khan School and College in Swat (for boys and girls).
He was the spokesman of the National Jirga in Swat at the time of
Talibanisation when Abdul Hai Kakar, then a correspondent of BBC,
reached out to him and asked him to find a female teacher in Swat who
could write about the cruelties of Taliban. To his disappointment no one
agreed to do so.
“My only daughter, Malala was just 11 years of age when I first asked
her to write about Swat and the Talibanisation in 2008. She did it. Not
for the sake of her father’s wish, but for the sake of the safety and
peace of her land. No one was willing to write the inside stories, the
cruelty, the terror and the sufferings of the people of Swat because of
the life threats by Taliban. She used the pseudonym, and I remember the
first time I saw someone print the diary, I could not tell them that
it’s my daughter who has written this. Today, I am happy that the world
knows who Gulmakai is!”
Yousafzai’s ambition doesn’t end with obtaining education. She wants to be a politician when she grows up.
“Democracy is the best rule. This country needs new leaders. I want
to study the law and I dream of a country in which education prevails
and no one sleeps hungry. That would be my kind of country.”
The conviction in her voice, truly matches the title awarded to her.
One can see her sparkling eyes witnessing the bright future of Pakistan.
گل مکائی، پاکستان کا مستقبل
اقتدارتک پہنچنے کی رہ گزرصرف سیاست ہے اور سیاست تک پہنچنے کا راستہ تعلیم ہے۔’ یہ سیدھا سادا فلسفہ بیان کیا ملالہ یوسف زئی نے۔
ملالہ کا تعلق خیبر پختونخواہ کی وادی سوات کے مشہور
منگورہ سے ہے۔ وہ ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہے، جنہیں سن دو ہزار نو میں
طالبان نے تعلیم حاصل کرنے پر دھمکیاں دی تھیں۔ آج ملالہ یوسف زئی ان
ہزاروں لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ہیں جو تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کے
خواب دیکھتی ہیں۔
پچھلے ہفتے اسلام آباد میں خواتین کی قیادت کےموضوع پر
منعقدہ آٹھویں بین الاقوامی کانفرنس میں ملالہ کو ‘پاکستان کا مستقبل’ کے
زمرے میں ‘ایکسیلنس’ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
ایوارڈ ملنے پر ملالہ کا کہنا تھا ‘جب انہوں نے مجھے
پاکستان کا مستقبل کہا تواپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔ اس اعزاز سے میری بہت
حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ میرے سامنے طویل اور مشکل سفر ہے جسے طے کرنے کے لیے
تعریف اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔’
ملالہ نے اپنے قلمی نام ‘گل مکائی’ سے جوتحریریں لکھی
تھیں،ان کے ذریعے دنیا نے طالبانی دور میں سوات کے لوگوں کے دکھ اور
پریشانیوں کو سمجھا۔ ملالہ کی تحریروں کی معصومیت نے ان گہرے معنوں کا
اظہار کیا جو اکثر بالغ افراد بھی نہیں کر پاتے۔
’گل مکائی کی ڈائری’ سب سے پہلے بی بی سی اردو نے اپنی
ویب سائٹ پر سن دو ہزار نو میں شائع کی تھی۔ ان تحریروں کی اشاعت کے چوتھے
سال بعد اب پندرہ سالہ ملالہ نویں جماعت میں زیرتعلیم ہیں۔
’سوات میں اب امن ہے مگر مجھے یہ نہیں سمجھ آتا کہ جن
لوگوں نے طالبان کی وجہ سے نقل مکانی کی تھی، ان کی بحالی میں حکومت کوئی
دلچسپی کیوں نہیں لے رہی۔ وہ ہمارے لیے اسکول بھی نہیں بنوارہے۔ صرف متحدہ
عرب امارات کی حکومت اعانت کررہی ہے۔ جس کے ساتھ پاکستانی فوج سوات کو
طالبان دور کی بھیانک تاریکیوں سے نکلنے میں مدد کررہی ہے۔’ یہ کہتے ہوئے
ملالہ بیک وقت افسردہ بھی تھیں اورانہیں غصہ بھی آرہا تھا۔
کانفرنس میں ملالہ کے ساتھ موجود ان کے والدین کا خیال ہے کہ ان کی بیٹی کو اپنی منزل پانے کے لیے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔
’موت ناگزیر ہے۔’ ملالہ کی والدہ نے کہنا شروع کیا۔ ‘ہر
شخص کو کبھی نہ کبھی مرنا ہے، چاہے وہ موت دہشت گردی کے ہاتھوں ہو یا نہیں،
مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سچائی کے راستے پر چلنا چھوڑ دیں۔ میرے
شوہر اور بیٹی نے یہ ثابت کر کے دکھا دیا کہ دہشت گردی سچائی کا راستہ
نہیں روک سکتی۔ وہ اپنی پیدائش کے دن سے ہی ہمارا سر فخر سے بلند کر رہی
ہے۔’
ملالہ کے تینتالیس سالہ والد زیادین یوسف زئی سوات میں
خوشحال خان اسکول اور کالج کے سربراہ ہیں۔ وہ سوات میں طالبانائزیشن کے دور
میں قومی جرگہ کے ترجمان بھی تھے۔
انہی دنوں، اس وقت کے بی بی سی اردو کے نامہ نگار
عبدالحئی کاکڑ نے زیادین سے سوات میں ایک ایسی استانی کو ڈھونڈنے کا کہا جو
طالبان کے ہاتھوں ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں لکھ سکے مگر کسی نے
حامی نہ بھری۔
زیادین کہتے ہیں کہ ‘جب سن دو ہزار آٹھ میں، میں نے اپنی
اکلوتی بیٹی ملالہ سے سوات اور طالبانائزیشن پر لکھنے کا کہا تو وہ اس وقت
صرف گیارہ سال کی تھی مگر اس نے یہ کام کر دکھایا۔ اس نے یہ کام میری خواہش
کی بنا پر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے علاقے میں امن اور حفاظت چاہتی تھی۔
طالبان کے ڈر سے کوئی بھی سوات کے اصل حقائق اور لوگوں کی مشکلات پر لکھنے
کو تیار نہ تھا ۔ وہ ڈرتے تھے،انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں مگر میری بیٹی نے
قلمی نام سے لکھنا شروع کردیا۔ جب پہلی باراس کی ڈائری کو ویب سائٹ پر
شائع ہونے کے بعد پڑھا تو اس وقت میں کسی سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ
اسے میری بیٹی نے لکھا ہے۔ آج مجھے خوشی ہے کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ گل
مکائی کون ہے۔’
ملالہ کا خواب صرف تعلیم حاصل کرنا نہیں۔ وہ بڑے ہو کر
سیاست دان بننا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ’جمہوریت سب سے بہترین اصول ہے۔
ملک کو نئے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
ایک ایسے ملک کا خواب دیکھتی ہوں، جہاں تعلیم کا بول بالا ہو اور کوئی
بھوکا نہ سوتا ہو۔ ایسا ملک میرا ملک ہوگا۔’
ان کی آواز کا یقین،ان کے نام کی طرح پرعزم اورحوصلہ مند ہے۔ ہم ان کی چمکتی آنکھوں میں پاکستان کاروشن مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔
Courtesy to Dawn News:This article is written by Nukhbat Malik.